تحریر: مطیع اللہ خان
اب تک جو ہوا ہے اور آگے بھی یونہی ہوتا نظر آرہا ہے اس میں تحریک انصاف کے سینئر رہنمائوں پر تنقید ضرور بنتی ہے کہ آپ تو چند دن بھی جیل میں نہیں گزار سکے ورنہ بھڑکیں تو اتنی مارتے تھے۔۔۔ فیملیز اور عزتیں تو سب کی ہوتیں ہیں آپ کوئی آسمان سے تو نہیں اترے ۔۔۔۔۔؟ اورجو پی ٹی آئی کے ہزاروں عام کارکنان اور وہ لوگ جو پرامن احتجاج کرتے ہوئے پکڑ لئے گئے اور اس وقت بھی جیلوں میں ہیں، ان کے لئے اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کون کروائے گا؟ سینئر رہنمائوں کے لئے تو جیل سے نکلنے کا ایک فارمولا بنا دیا گیا کہ پریس کانفرنس کرو اور پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرو اور گھر جاؤ آرام سے، اب آپ باضمیر،معزز، اصول، آئین اور جمہوریت پسند ہیں اور اب آپ کے خلاف شرپسندی، غداری اور بغاوت کے مقدمے تقریبا ختم ہی۔۔۔۔۔ ہاں اگر آپ تحریک انصاف میں ہی رہتے ہیں تو پھر آپ دہشت گرد بھی ہیں، غدار بھی ہیں، چور ڈاکو تو ہے ہی، اور آئین اور جمہوریت کے دشمن بھی ہیں اور آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی اور جیل ہی آپ کا مقدر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریک انصاف چھوڑنے والے لوگوں کو بزدلی کے طعنے اپنی جگہ لیکن اگر ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سب ہی لوگ اتنے ہی مضبوط، تکلیفیں برداشت کرنے والے اور پارٹی کے ساتھ مخلص تھے تو پھر ان ہی کی کوکھ سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور ق لیگ جیسی پارٹیاں کیسے بن گئی تھیں؟ دوسری جو چیز شاید ماضی سے ہٹ کر ہوئی کہ تب زیادہ تر مختلف جماعتوں کے سیاستدانوں کو کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر ہی جیلوں میں ڈالا جاتا تھا اور ہمیشہ سے ایک عام تاثر رہا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر ہی بنائے جاتے رہے ہیں ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ یہ موجودہ پریس کانفرنسز والا سین تو نیا ہی ہے کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ یوں بالخصوص ایک سیاسی جماعت اور سیاست سے کنارہ کشی آپ کے “گناہوں” کا کفارہ بن بنائے۔۔۔ ماضی میں بھی یقینا سیاسی رہنمائوں کو اپنی اپنی جماعتوں سے الگ کروانے کے لئے دبائو ڈالا گیا لیکن آج جو ہو رہا ہے یہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔۔۔۔ ماضی میں اس حد تک جانے کی ضرورت شاید اس لئے بھی پیش نہیں آئی کہ زیرعتاب سیاسی جماعتوں کے لیڈرز ہی ڈیلیں کر کے ملک سے چلے جاتے تھے یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرلیتے، اور یا مقتدر حلقوں کے ساتھ خفیہ معاہدے کر لیتے تھے جیسے کہ 1999کے مارشل لاء کے بعد اور 2019 میں نواز شریف کا جیل سے نکل کر لندن چلے جانا اور نواز شریف کے ہی دور حکومت میں احتساب کمیشن کے قیام اور مخالفین کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کے بعد 1998 میں بے نظیر بھٹو کا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرلینا جو کہ 2007 میں جاکر ختم ہوئی۔۔۔ یوں مقتدرحلقوں کو اپنے لئے کوئی بھی ممکنہ خطرہ ہوا میں اڑتا دیکھائی دیتا اور مزید کسی سخت ہتھکنڈے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔۔۔۔۔۔۔ پھر ماضی میں سیاسی جماعتوں کے خلاف ایسے حربے فوجی دور حکومت میں اختیار کئے گئے اور نئ سیاسی جماعتوں کووجود میں لایا گیا لیکن اس وقت ملک میں ایک “جمہوری”، “انسانی حقوق کی علمبردار” اور “آئینی” حکومت ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی بالکل “نیوٹرل” ہے۔۔۔۔۔۔۔ (ہنسیں مت😁)۔۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ حالات میں بقول تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں خواتین کو بھی اس حکومت نے جیل میں قیدکیا ہوا ہے اورناصرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے اہل خانہ بھی زیر اعتاب ہیں بلکہ ان کے گھروں کی خواتین کو بھی جیلوں میں ڈالنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری اور عثمان ڈار اور حماد اظہر کے گھر کی خواتین کے ساتھ سلوک ایسے واقعات کی چند مثالیں ہیں۔۔۔۔۔ یقینا ایسے انتہائی قابل مذمت اور گھناؤنے واقعات اور اس بڑی سطح پر ماضی میں کم ہی دیکھنے اور سننے کو ملے۔۔۔ اس وقت جو ایک مخصوص جماعت کو مکمل طور پر کچلنے کے لئے جس طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں اس کی مثال شاید ہی تاریخ میں ملے۔۔ جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ یقینا ماضی میں ایسی واقعات کی کچھ مثالیں ملتی ہیں لیکن اس بڑے پیمانے پر نہیں۔۔۔۔۔۔ ایک طرف حکومتی بیانیے اور منشا کے خلاف چلنے والی عدلیہ، ٹی وی چینلز، صحافیوں اور سوشل میڈیا کی آوازیں بند کر نے لئے تمام دائو پیچ آزمائے جار ہے ہیں اور دوسری طرف تمام اداروں کے ساتھ ساتھ ریاست کے کنٹرول میں ٹی وی چینلز کی بھرمار اور صبح سے شام تک ایک مخصوص پراپیگنڈا وار اس جبر اور زیادتی کو مزید سنگین بنانے کے لئے کافی ہے۔۔ لہذا ایسے حالات میں اور پھر جب موجودہ حکمرانوں کی جانب سے کھلم کھلا پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کا سیاسی وجود ختم کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہوں، جب ذوالفقار علی بھٹو کے لئے جنرل ضیاءالحق کے کہے گئے یہ الفاظ “کہ قبر ایک ہے اور مردے دو (یعنی میں یا بھٹو)” کو دہراتے ہوئے موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ یہ کہے کہ “یا ہم رہیں گے یا عمران خان” اور ایسا ممکن بنانے کےلئے وہ “غیر جمہوری” ہتھکنڈے استمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گیں، جب تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے اور اس کے رہنماؤں کے خلاف9 مئی کی آڑ میں فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمے قائم کئے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہوں اور ہم خیال صحافیوں کی جانب سے ایسا کرنے کی مکمل پشت پناہی ہو، انتخابات سے مکمل فرار، بلا خوف و خطر عدلیہ کے توہین اور اس کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا رہا ہو، اور آئین و قانون شکی اپنے عروج پر ہو، اور میڈیا سمیت تمام ادارے ان تمام باتوں کے باوجودہ آپ کے شانہ پشانہ کھڑے ہوں تو پھر پی ٹی آئی جیسی تنہا سیاسی جماعت اور اس کےرہنماؤں کا اپنے مستقبل کے حوالے سے پر امید رہنا کافی دشوار نظر آتا ہے۔۔۔ لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ان واقعات سے وہی ” خفیہ طاقتیں” مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی جن کو زیر کر کے جمہوریت اور سویلین کی بالادستی قائم کرنے کی خواہش لئے تمام سیاسی جماعتیں دہائیوں سے بیٹھیں ہیں۔۔۔ آج اگرتحریک انصاف اس حد تک زیر عتاب ہے تو آج جو ” سیاسی اور میڈیا کے کھلونے” بغلیں بجا رہے ہیں کل کو ان کا نمبر بھی آئے گا بس مفادات ٹکرانے کی دیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر شاید ماضی کی طرح جیلیں کاٹنے اور مخلص سیاسی سپاہی جیسے الفاظ ادا کرنے کی بھی ہمت نہ رہے۔۔۔۔
ضروری اعلان
اس مضمون/رائے/تبصرے میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے اپنے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ڈی این ڈی تھاٹ سینٹر اور ڈسپیچ نیوز ڈیسک (ڈین این ڈی) کی سرکاری پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔ تجزیہ میں کیے گئے مفروضے ڈی این ڈی تھاٹ سینٹر اور ڈسپیچ نیوز ڈیسک نیوز ایجنسی کی پوزیشن کے عکاس نہیں ہیں۔